Monday, February 24, 2020

بے قدری

بے قدری
ہم انسان کتنے نا شکرے ہوتے ہیں ہمیں ہمیشہ وہی چیز چاہیے ہوتی ہے جو ہمیں ہمارے ہی بھلے  کے لئے نہ ہو۔ پھر انسان اللہ سے ضد بندھ کر بیٹھ جاتا ہے، نا شکری شروع کردیتا ہے۔
میں یہ نہیں کہوں گی کہ میں بہت شکر گزار ہوں یا میں کبھی اللہ سے شکایت نہیں کرتی لیکن اللہ سے شکایت کرنا اور نا فرمانی کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
میری ایک بہت اچھی دوست ہے جوہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتی ہے اور جو ہمیشہ مجھے ہمت دلاتی ہے ۔ وہ میری زندگی کی دوسری لڑکی ہے جس سے میں نہ صرف متاثر ہوئی بلکہ وہ میرے لئے ایک   انسپریشن (Inspiration)ہے لیکن بعض دفعہ وہ ایسی باتیں کرجاتی ہے کہ میں بس حیرت سے اس کامنہ تکتے رہ جاتی ہوں۔ابھی پچھلے دنوں کسی بات پر اس کاموڈ کافی خراب تھا اور اسی غصہ اورمایوسی میں وہ کہنے لگی کہ میری قسمت ہی خراب ہے ہمیشہ کچھ اچھا ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے جس پر مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ غصہ بھی آیا لیکن میں نے اس کو بہت پیار اور صبر سے سمجھایا اور اس کے گھر والوں نے بھی جس کے بعد وہ سمجھ گئی لیکن میں یہ سوچنے لگی کہ ہم انسان آخر کیوں ایسے ہوتے ہیں آخر کیوں ہم ذرا سی دنیاوی چیز نہ ملنے پر اللہ سے سوال کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم کس حق سے اپنے رب سے سوال کر رہے ہیں کیا ہم اتنے نیک اور پرہیز گار ہیں یا ہم نے کچھ نمازیں پڑھ کر اپنے رب پر احسان کیا کہ ہم اس سے سوال کریں۔
میں یہ نہیں کہتی کہ آپ اللہ سے بات نہ کریں، شکایت نہ کرے یا اس کے سامنے فریاد نہ کریں بلکہ بس اس سے ناشکری نہ کرے ۔ میں جانتی ہوں کچھ چیزوں کے لئے صبر کرنا بہت مشکل ہے بلکہ آپ تو یہ سوچتے ہونگے کہ آپ کے لئے ناممکن ہو لیکن ہوسکتا ہو وہ چیز، وہ نوکری، وہ شخص آپ کے لئے بہتر تو ہو لیکن اللہ آپ کے لئے بہترین منتخب کرچکاہو۔
کسی بھی چیز کے بارے میں پہلے سے منفی سوچنے سے اچھا ہے کہ آپ کچھ وقت دیں اس  چیزکو ہوسکتا ہے آپ کے لئے کوئی نیا سپرائس آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ویسے یہاں میں ایک اور بہت مزے کی بات بتانا چاہوں گی جو میری ہی ہے تو ہوا کچھ ایسا کہ ابھی کچھ ہفتے ہی ہوئے تھے ہمارا ماسٹرز ختم ہوئے تو ہم دوستوں نے سوچا کہ کہیں نوکری کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ میری دو کافی اچھی دوستیں ہیں تو ہم ساتھ ہی اپنی سی وی ہر جگہ دے رہے تھی اب ہوا کچھ یوں کہ میری دوستوں کے پاس انٹرویو کی کال آگئی اور میرے پاس ایک میسج تک نہ آیا یہ سوچ سوچ کر مجھے اتنا برا لگ رہا کہ کیا میں اس قابل بھی نہیں ۔میری دوستوں نے کافی سمجھایا مجھے اور پھر میں اکیلی چھت پر کھڑی اللہ سے بات کر رہی تھی(سب سے اچھا طریقہ خود کو اچھا محسوس کروانے کا) تو ایک دم سے میرے ذہن میں آیا کہ  کیوں نہ اپنی سی وی کھول کر دیکھوں اور پھر مجھے پتہ چلا کہ لوں بھئی میں نے تو اپنا فون نمبر ہی غلط ڈالا ہوا ہے۔
اسکے  بعد جو مجھے اپنی بہن سے ناشکری کے طعنے سننے کو ملے وہ تو الگ ہیں لیکن اپنی دوستوں سے بھی کافی لعن تعن ملی۔ اس لئے ضروری نہیں کہ آپ کی زندگی میں جو کچھ غلط ہورہا ہے وہ آپ قسمت پر یا اللہ پر ڈال کر خود بری الزمہ ہوجائے۔آپکی زندگی میں بہت کچھ آپ کے اپنے کرتوت کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment